عقیدہ (۱۶): حیات۱، قدرت۲، سننا۳، دیکھنا۴ ، کلام۵، علم۶، اِرادہ ۷ اُس کے صفاتِ ذاتیہ ہیں ، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں ، کہ یہ سب اَجسام (جسم کی جمع) ہیں اور اَجسام سے وہ پاک ہے۔ ہر پست سے پست (ہر دبی ہوئی) آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہوں وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں ، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔
(بحوالہ ’’فقہ الأکبر‘‘، ص۱۵۔۱۹: (لم یزل ولا یزال بأسمائہ وصفاتہ الذاتیۃ والفعلیۃ، أمّا الذاتیۃ فالحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ)۔
عقیدہ (۱۷): مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے(1)، حادث و مخلوق نہیں ، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ہمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اُسے کافر کہا، بلکہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔
(بحوالہ: ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘، ج۱۵، ص۳۷۹۔۳۸۴۔)
عقیدہ (۱۸): اُس کا کلام آواز سے پاک ہے اور یہ قر آ نِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں ، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ہمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ہمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ہمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ہمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ہمارا حفظ کرنا حادث ہے اور جو ہم نے حفظ کیا قدیم یعنی کلام الہی، قدیم ہے، اور ہمارا پڑھنا، سننا، لکھنا ، یاد کرنا یہ سب حادث ہے۔
(بحوالہ في’’منح الروض الأزہر‘‘، للقاریٔ، ص۱۷: (إنّ کلامہ لیس من جنس الحروف والأصوات)۔
عقیدہ (۱۹): اُس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔
(بحوالہ: ’’الحدیقۃ الندیۃ‘‘، ج۱، ص۲۵۴: (العلم) وہي صفۃ تنکشف بہا المعلومات عند تعلّقہا بہا سواء کانت المعلومات موجودۃ أو معدومۃ، محالۃ کانت أو ممکنۃ، قدیمۃ کانت أوحادثۃ، متناہیۃ کانت أوغیر متناہیۃ، جزئیۃ کانت أوکلیۃ، وبالجملۃ جمیع ما یمکن أن یتعلق بہ العلم فہومعلوم للّٰہ تعالی۔ )
عقیدہ(۲۰): وہ غیب(چھپی ہوئی چیزوں) و شہادت(کھلی ہوئی چیز) سب کو جانتا ہے، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے، جو شخص علمِ ذاتی، غیب خواہ شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔ علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ خدا کے دیے بغیر خود حاصل ہو۔
(بحوالہ: هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ } پ۲۸، الحشر: ۲۲۔
في ’’الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ‘‘، ص۳۹: (العلم ذاتي مختص بالمولی سبحانہ وتعالی لا یمکن لغیرہ، ومن أثبت شیئاً منہ ولو أدنی من أدنی من أدنی من ذرۃ لأحد من العالمین فقد کفر وأشرک وبار وھلک)، ملتقطاً۔ انظر للتفصیل: ’’الفتاوی الرضویۃ‘‘ ، ج۲۹، ص۴۳۶۔۴۳۷۔)