عقیدہ (۲۱) : وہی ہر شے کا خالق ہے، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔
عقیدہ (۲۳) : ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔
عقیدہ (۲۴): قضا تین ۳ قسم ہے۔
مُبرَمِ ۱ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلّق نہیں ۔
اور معلّقِ ۲ محض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔
اور معلّقِ ۳ شبیہ بہ مُبرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔
وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے۔ ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ افضل الصّلاۃ والتسلیم کہ رحمت ِمحضہ تھے، اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے، یعنی ابِ رحیم، مہربان باپ، اُن کافروں کے بارے میں اتنے ساعی ہوئے کہ اپنے رب سے جھگڑنے لگے، اُن کا رب فرماتا ہے۔
{ يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍؕ۰۰۷۴}(1)
’’ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں ۔‘‘
یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزت میں کوئی عزت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عزوجل اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ’’ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں ‘‘،
حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اﷲ عزوجل کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت فرمایا :’’کہ یہ کون ہیں ؟ ‘‘ عرض کی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام، فرمایا: ’’کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں ؟‘‘ عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ جب آیۂ کریمہ { وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ۰۰۵} نازل ہوئی کہ ’’بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔‘‘
حضور سیّدالمحبوبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذاً لاَّ أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ))۔
’’ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔"
یہ تو شانیں بہت رفیع ہیں ، جن پر رفعت عزت وجاہت ختم ہے۔ صلوات اﷲ تعالیٰ و سلامہ علیہم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ’’روزِ قیامت اﷲ عزوجل سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا:
((أَیُّـھَا السِّقْطُ المُرَاغِمُ رَبَّـہٗ))۔
’’اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔‘‘
خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطین الانس کی خبا ثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ علیہ الصّلاۃ والسلام اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا:
{ يٰۤاِبْرٰهِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا١ۚ ۔۔۔ اِنَّهُمْ اٰتِيْهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ۰۰۷۶]
’’اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو ۔۔۔ بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں ۔‘‘
اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں ، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی کو فرماتے ہیں : ’’میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں ‘‘ اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا:
((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ))۔(1)
’’بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔‘‘
مسئلہ (۱): قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ہلاکت ہے، صدیق وفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ ما و شما (ہم اور آپ) کس گنتی میں ۔۔۔! اتنا سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں ، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا، دونوں گمراہی ہیں ۔
مسئلہ (۲): بُرا کام کرکے تقدیرکی طرف نسبت کرنا اور مشیت ِالٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے منجانب اﷲ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامتِ نفس تصوّر کرے۔
عقیدہ (۲۵): ﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔