Type Here to Get Search Results !

بنیادی عقائد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جَلّ جلا لہٗ - آخری قسط

عقیدہ (۲۶):  دنیا کی زندگی میں ﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور آخرت میں   ہر سُنّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ رہا قلبی دیدار یا خواب میں  ، یہ دیگر انبیا علیہم السلام بلکہ اولیا کے لیے بھی حاصل ہے۔  ہمارے امامِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں   سو ۱۰۰ بار زیارت ہوئی۔


عقیدہ (۲۷)اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں   گے اور یہ نہیں  کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں  اُس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں  ، آگے یا پیچھے، اُس کا دیکھنا اِن سب باتوں   سے پاک ہوگا، پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں  دخل نہیں  ، اِن شاء اﷲ تعالیٰ جب دیکھیں   گے اُس وقت بتا دیں   گے۔ اس کی سب باتوں   کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں   تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں   اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رسا نہیں  ، اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ کرے، یہ محال ہے۔

عقیدہ (۲۸):  وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کسی کو اُس پر قابو نہیں اور نہ کوئی اُس کے ارادے سے اُسے باز رکھنے والا۔ اُس کو نہ اُونگھ آئے نہ نیند، تمام جہان کا نگاہ رکھنے والا، نہ تھکے، نہ اُکتائے، تمام عالم کا پالنے والا، ماں  باپ سے زیادہ مہربان، حلم والا۔ اُسی کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا، اُسی کے لیے بڑائی اور عظمت ہے۔ ماؤں  کے پیٹ میں جیسی چاہے صورت بنانے والا، گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، قہر و غضب فرمانے والا، اُس کی پکڑ نہایت سخت ہے ، جس سے بے اُس کے چھڑائے کوئی چھوٹ نہیں سکتا۔ وہ چاہے تو چھوٹی چیز کو وسیع کر دے اور وسیع کو سمیٹ دے ، جس کو چاہے بلند کر دے اور جس کو چاہے پست، ذلیل کو عزت دیدے اور عزت والے کو ذلیل کر دے، جس کو چاہے راہِ راست پر لائے اور جس کو چاہے سیدھی راہ سے الگ کر دے، جسے چاہے اپنا نزدیک بنالے اور جسے چاہے مردود کر دے، جسے جو چاہے دے اور جو چاہے چھین لے، وہ جو کچھ کرتا ہے یا کرے گا عدل وانصاف ہے ، ظلم سے پاک و صاف ہے، نہایت بلند و بالا ہے، وہ سب کو محیط ہے اُس کا کوئی اِحاطہ نہیں   کر سکتا، نفع و ضرر اُسی کے ہاتھ میں   ہیں، مظلوم کی فریاد کو پہنچتا  اور ظالم سے بدلا لیتا ہے، اُس کی مشیت اور اِرادہ کے بغیر کچھ نہیں   ہوسکتا، مگر اچھے پر خوش ہوتا ہے اور بُرے سے ناراض، اُس کی رحمت ہے کہ ایسے کام کا حکم نہیں   فرماتا جو طاقت سے باہر ہے۔ ﷲ عزوجل پر ثواب یا عذاب    یا بندے کے ساتھ لطف یا اُس کے ساتھ وہ کرنا جو اُس کے حق میں   بہتر ہو اُس پر کچھ واجب نہیں ۔ مالک علی الاطلاق ہے، جو چاہے کرے اور جو چاہے حکم دے، ہاں! اُس نے اپنے کرم سے وعدہ فرما لیا ہے کہ مسلمانوں کوجنت میں داخل فرمائے گا اور بمقتضائے عدل کفّار کو جہنم میں، اور اُس کے وعدہ و وعید بدلتے نہیں اُس نے وعدہ فرمالیا ہے کہ کفر کے سوا ہر چھوٹے بڑے گناہ کو جسے چاہے معاف فرمادے گا۔

عقیدہ (۲۹):  اُس کے ہر فعل میں   کثیر حکمتیں   ہیں  ، خواہ ہم کو معلوم ہوں   یا نہ ہوں   اور اُس کے فعل کے لیے غرض نہیں  ، کہ غرض اُس فائدہ کو کہتے ہیں   جو فاعل کی طرف رجوع کرے، نہ اُس کے فعل کے لیے غایت، کہ غایت کا حاـصل بھی وہی غرض ہے اور نہ اُس کے افعال علّت و سبب کے محتاج، اُس نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق عالَمِ اسباب میں مسبّبات کو اسباب سے ربط فرمادیا ہے، آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، آ گ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، وہ چاہے تو آنکھ سُنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں دن کو پہاڑ نہ سُوجھے، کروڑآگیں ہوں ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔ کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو کافروں نے ڈالا۔۔۔! کوئی پاس نہ جا سکتا تھا، گوپھن میں رکھ کر پھینکا، جب آگ کے مقابل پہنچے، جبریلِ امین علیہ الصلاۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کی: ابراہیم کچھ حاجت ہے؟ فرمایا: ہے مگر نہ تم سے عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے، فرمایا:
’’عِلْمُہٗ بِحَالِيْ کَفَانِي عَنْ سُؤَالِيْ‘‘۔
اظہارِ احتیاج خود آنجاچہ حاجت ست۔
            ارشاد ہوا:
{ يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَۙ۰۰۶۹}
’’اے آگ! ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا ابراہیم پر۔‘‘
اس ارشاد کو سُن کر روئے زمین پر جتنی آگیں   تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں   کہ شاید مجھی سے فرمایا جاتا ہو اور یہ تو ایسی ٹھنڈی ہوئی کہ علما فرماتے ہیں   کہ اگر اس کے ساتھ {وَ سَلٰمًا کا لفظ نہ فرما دیا جاتا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا تو اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک ایذا دیتی۔ 

نوٹ: تمام عقائد و مسائل بحوالہ بہار شریعت

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.